روزانہ کا کام بڑا انعام (سلیمان آصف‘ لاہور)
ننھی! بس اب دانے جمع کرنا بند کردو۔“ ایک دن خالہ جان نے ننھی سے کہا ”خالہ جان! میں کچھ دانے اور جمع کرنا چاہتی ہوں۔“ ننھی نے جواب دیا۔ اصل میںننھی چاہتی تھی کہ خالہ جان بڑے بڑے دانے اس کے گھر جمع کرتی رہیں۔
کسی جنگل میں ایک ننھی چیونٹی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ ننھی چیونٹی کی ماں جب تک صحت مند تھی اپنے اور ننھی چیونٹی کیلئے مزے دار دانے لاتی لیکن جب اس کی ماں بیمار اور بوڑھی ہوگئی تو دانہ لانے کی ذمہ داری ننھی چیونٹی پر آپڑی۔
اس کی ماں نے اسے سمجھایا تھا کہ برسات سے پہلے پہلے بہت سا دانہ جمع کرنا ضروری ہے تاکہ سردیوں میں آرام رہے اور خوراک بھی آسانی سے ملتی رہے۔ ننھی نے پہلے دن بہت محنت کی اور بہت دور سے چند دانے گھر تک لے جاسکی۔ پھر اور دانے لانے سے انکار کردیا۔
اس کی ماں نے فکرمند لہجے میں کہا:
”ننھی! صرف ان چند دانوں سے تو کچھ نہ ہوگا۔ آخر ہم سردیوں میں اپنا پیٹ کیسے بھریں گے۔ اس وقت خوراک بالکل غائب ہوگی۔“
ننھی نے کہا ”یہ بہت مشکل کام ہے‘ میں تو صرف چند دانے لاسکتی ہوں۔ اس سے زیادہ نہیں۔“ یہ کہہ کر ننھی سوگئی۔
اگلے دن وہ پھر دانوں کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس نے سوچا کہ میں اب بڑے بڑے دانے اپنے گھر میں جمع کروں گی۔ اسے ایک درخت کے قریب بہت سی چیونٹیاں جاتی نظر آئیں۔ جب وہ درخت کے قریب پہنچی تو وہاں روٹی کے بے شمار ٹکڑے پڑے تھے۔
اس نے دیکھا کہ جو چیونٹیاں چھوٹی ہیں وہ بڑی تیزی سے چھوٹے چھوٹے دانے منہ میں اٹھائے لے جارہی ہیں جبکہ بڑے چیونٹے بڑے بڑے دانے منہ میں دبائے جارہے تھے۔ اس نے ایک بڑا سا دانہ منہ میں پکڑا اور چل پڑی لیکن ابھی چند قدم چلی تھی کہ تھک گئی۔
اس دوران ایک بوڑھی چیونٹی کی نظر ننھی پر پڑی اس نے کہا: ”بھئی ننھی کیا بات ہے؟“ اس نے سارا قصہ سنایا۔ بڑی خالہ ہنس پڑیں۔ بڑی خالہ ننھی چیونٹی کو ایک درخت کے قریب لے گئی جہاں ٹھنڈی چھائوں تھی۔
بڑی خالہ نے چھوٹی چیونٹیوں کی طرف اشارہ کیا ”تم بھی ان کی طرح پھرتی سے کام کرو اور چھوٹے دانے گھر لے جائو بڑے دانے تم نہیں لے جاسکتیں۔“
اچھا دیکھو ننھی! تم چھوٹے دانے میرے گھر پہنچائو اور میں بڑے بڑے دانے تمہارے گھر لے کر چلتی ہوں‘ لیکن ایک شرط ہے۔“
”خالہ! مجھے ہر شرط منظور ہے“ ننھی خوش ہوکر بولی۔
”تم ہر روز تین گھنٹے کام کروگی“ خالہ جان نے شرط بتائی تو ننھی نے فوراً کہا کہ اسے یہ شرط منظور ہے۔
دن گزرتے گئے چیونٹی پابندی سے روزانہ چھوٹے چھوٹے دانے خالہ جان کے گھر جمع کرتی اور خالہ جان بڑے بڑے دانے ننھی کے گھر لے جاتے۔
ننھی کی ماں خالہ جان سے بہت خوش تھیں کہ خوراک جمع کرنے میں مدد کررہے ہیں جب ننھی ذرا آرام کرتی تو خالہ جان فوراً اسے اٹھنے اور پابندی کرنے کی تاکید کرتیں۔
”ننھی! بس اب دانے جمع کرنا بند کردو۔“ ایک دن خالہ جان نے ننھی سے کہا ”خالہ جان! میں کچھ دانے اور جمع کرنا چاہتی ہوں۔“ ننھی نے جواب دیا۔ اصل میںننھی چاہتی تھی کہ خالہ جان بڑے بڑے دانے اس کے گھر جمع کرتی رہیں۔ بس ننھی! خوراک بہت زیادہ جمع ہوگئی ہے۔ اتنی کافی ہے۔ ”خالہ جان نے ننھی کو سمجھایا تو اس نے بات مان لی۔ پھر ننھی اور خالہ جان اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
دن گزرتے رہے۔ ننھی کے ہاں بہت سی خوراک جمع تھی۔ خوراک کے بڑے بڑے دانے دیکھ کر ننھی خالہ جان کی شکرگزار تھی۔ ایک دن جب سردیاں زوروں پر تھیں۔ سب جانور اپنے اپنے گھروں میں آرام کررہے تھے کہ اچانک ننھی کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ننھی نے دروازہ کھولا تو خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی۔ مہربان خالہ جان سامنے کھڑی تھیں۔
ننھی نے جلدی سے انہیں اندر بلالیا اور ان کی خوب خاطر کی۔ اس کی ماں بھی خالہ جان کی بہت شکرگزار تھیں۔
”خالہ جان! آپ کی بہت بہت مہربانی!“ ننھی نے خالہ جان سے کہا۔ ”کیوں ننھی! کس بات کی مہربانی؟“ خالہ جان حیرت سے بولیں۔
”خالہ جان! آپ نے یہ اتنی ساری خوراک جو ہمیں دی۔“ ننھی نے خوراک کے بڑے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔
اچھا !خالہ جان نے قہقہہ لگا کر کہا لیکن تم نے وہ خوراک تو دیکھی ہی نہیں جو میں نے گودام میں جمع کی ہے‘ جو تم لائی تھیں۔“
خالہ جان! وہ تو چھوٹے چھوٹے دانے تھے۔ ان کے مقابلے میں ان بڑے دانوں کا کیا مقام ہے۔
خود دیکھو گی تو پتا چلے گا کہ کس کی خوراک زیادہ ہے۔ وہ جو تم نے جمع کی تھی یا یہ بڑے بڑے دانے جو میں نے تمہارے گھر میں جمع کیے ہیں۔ خالہ جان نے کہا اور اس کی ماں سے اجازت لی کہ وہ ننھی کو اپنے گھر لے جارہے ہیں تاکہ اسے خوراک دکھا سکیں۔ اس کی ماں نے اجازت دیدی اور خالہ جان ننھی کو لے کر اپنے گھر روانہ ہوگئیں۔
ارے خالہ جان! ننھی کے منہ سے حیرت کے مارے چیخ نکل گئی۔ کیوں ننھی! دیکھا تم نے کتنی خوراک جمع کی ہے۔ اب بتائو وہ خوراک زیادہ تھی یا یہ چھوٹے چھوٹے دانے! خالہ جان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ خالہ جان! میں ماننے کو تیار نہیں ہوں میں اتنی ساری خوراک جمع نہیں کرسکتی۔ اس نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا۔
دیکھو ننھی! خالہ جان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا یہ سب خوراک تم نے جمع کی تھی۔ یہ اس لیے بہت زیادہ ہے کہ تم نے ایک مہینے میں ہر روز بہت محنت اور ایمانداری سے کام کیا ہے۔
تم نے کام کے دوران ایک لمحہ بھی آرام نہیں کیا۔ یہ اسی کا کمال ہے۔ یادرکھو! محنت اور کام کوباقاعدگی سے کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ اتنی بڑی کامیابی کہ تم حیران ہوجائوگی۔ اتنی حیران جتنی کہ تم اب ہورہی ہو۔
پھر خالہ جان نے ننھی کو اس ڈھیر میں سے کچھ خوراک اور دیدی۔ وہی ننھے اور چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل خوراک۔ ننھی نے خالہ سے کہا ۔” اللہ آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے“۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں